مسکرایا ہے،رلایاہے۔
اس دل نے ہم کو بہت ستایا ہے۔
تیری آنکھوں کو جب سے دیکھا ہے.
اس رات خود کو بہت جلایاہے.
چاند سے دوستی اچھی نہیں ہے.
یاروں نے بہت سمجھایا ہے.
چاندنی شب تک کی مہمان ہے
اِس کے بعد سویرے نے بہت تڑپایا ہے۔
وہ تو سنگدل ہے ،ظالم ہے۔
پھر بھی اُس کی یاد کا دیپ جلایا ہے۔
تیری واپسی کی اُمید پہ در کھلا رکھا ہے۔
ورنہ سرد موسم تو کب کا لوٹ آیا ہے۔
کیا ہوا جو دل میں تیری جدائی رہتی ہے۔
اِن آنکھوں میں تو تیرا ہی اِنتظار سمایا ہے۔
زمانے سے تیری بےوفائی کا قصہ سنا ہے۔
اِنھیں کون سمجھائےجذبوں کی فطرت میں بد گمانی نھیں ہے۔
وہ گَر نھیں آیا ،یہ اُس کی مرضی ہے۔
نبھاتے چلنا بھی تو رمزِمحبت ہے۔
تم سے کب کچھ چاہا ، تم سے کب اُمید ہے۔
یہ وفا میری ہے،یہ جوگ بھی میرا ہے۔
مت بولو بے وفا اُس کو ،وہ بے درد نھیں ہے۔
امن!یہ میری محبت ہے،یہ اِنتظار بھی میرا ہے۔
0 comments:
Post a Comment